ایک کڑوا سچ



ایک بڑے اسکول کے چھوٹے سے بچے کو جب میں نے کلاس میں ریپر پھینکتے دیکھا تو فورا بولا بیٹا اس کو اٹھائیں تو اس بچے نے جھٹ کر کے جواب دیا کہ انکل میں کوئی سوئیپر تھوڑی ہوں تھوڑی دیر میں سوئیپر انکل آ کر اٹھا لینگے ۔یہ اس بچے کا جواب نہیں تھا یہ اس اسکول کا جواب تھا جہاں سے وہ تعلیم حاصل کررہا ہے ۔ میں نے کئی لوگوں کو بغیر ہیلمٹ اور بغیر سیٹ بیلٹ باندھے پاکستان کے ٹریفک کے نظام کو گالیاں دیتے دیکھا ہے ۔ میں نے کئی لوگوں کو فٹ پاتھ پر پان کی پیک مارتے ، اپنی گلی کے سامنے والی گلی میں کچرا ڈالتے ، سیگرٹ پی کر زمین پر ڈالتے اور پھر دبئی اور لندن کی صفائی ستھرائی کا ذکر کرتے دیکھا ہے ۔ اپنے مکان کی تعمیر کے دوران اچھے خاصے درخت کو کاٹتے اور اور پھر سنگاپور کی ہریالی کا ذکر کرتے سنا ہے ۔٘میں نے کئی اماوں کو چیختے ہوئے دیکھا ہے جو اپنے بچوں کو چیخ کر کہتی ہیں کہ چیخا مت کرو میں کوئی بہری نہیں ہوں اور کئی باپوں کو مارتے ہوئے دیکھا ہے کہ جو بچوں کو کہتے ہیں آئیندہ بھائی کو ہاتھ مت لگانا ورنہ ہاتھ توڑ دونگا ۔ اپنے گھر کی گیلری کو بڑھاتے اور گلی گھیرتے دیکھا ہے اور ان ہی کی زبان سے امریکا اور یورپ کی چوڑی چوڑی گلیوں اور سڑکوں کا ذکر سنا ہے ۔ میں نے مسجد کے باہر بیچ روڈ پر لوگوں کو گاڑی پارک کرتے دیکھا ہے کہ جن کو نماز کو دیر ہورہی ہوتی ہے اور پحر ان ہی لوگوں سے کئی کئی گھنٹوں حقوق العباد پر لیکچر سنا ہے ۔ نجانے کتنے لوگوں کو شادی میں وقت کی پابندی اور سادگی پر جلتے کڑھتے دیکھا ہے اور پھر ان ہی کے گھر کی شادیوں میں وقت کو برباد ہوتے اور سادگی کی دھجیاں اڑتے دیکھی ہیں ۔ اور پتہ نہیں کتنے لوگوں کو ۔۔۔۔۔ ارے خیر چھوڑیں گذارش بس اتنی تھی کہ ہر کام نواز شریف ، زرداری ، عمران خان ،فوج اور پولیس کو نہیں کرنے ہوتے کچھ کام ہمارے کرنے کی بھی ہوتے ہیں شکریہ

Comments

Popular posts from this blog

تم میری آخری محبت ہو

وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں

ﭼﻠﻮ ﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ