تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو جو ملے خواب میں وہ دولت ہو میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو تم ہو تو خوشبو کے خواب کی خوشبو اور اتنی ہی بے مروت ہو تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو کس طرح چھوڑ دوں تمہیں جاناں تم میری زندگی کی عادت ہو کس لیے دیکھتی ہو آئینہ تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو داستاں ختم ہونے والی ہے تم میری آخری محبت ہو جون ایلیا
وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی میں جدھر گیا میں جہاں رہا میرے ساتھ تھا وہی ایک سایہ مہرباں وہ جو ایک پارہ ابر تھا سر آسماں پس ہر گماں وہ جو ایک حرف یقین تھا میرے ہر سفر کا امین تھا وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا وہ اجڑ گیا وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، میرے راستوں میں جلا رہا وہ بکھر گیا میرے غم کو جڑ سے اُکھاڑھتا وہ جو ایک لمسِ عزیز تھا کسی کپکپاتے سے ہاتھ کا ، وہ نہیں رہا وہ جو آنکھ رہتی تھی جاگتی ، میرے نام پر وہ سو گئی وہ جو اک دعاِ سکون تھی میرے رخت میں ، وہی کھو گئی اے خدُائےِ واحد و لم یزل تیرے ایک حرف کے صید ہیں یہ زماں مکاں تیرے فیصلوں کے حضور میں نہ مجال ہے کسی عذر کی نہ کسی کو تابِ سوال ہے یہ جو زندگی کی متاء ہے تیری دین ہے تیرا مال ہے مجھے ہے تو اتنا ملال ہے کہ جب اُسکی ساعت آخری سرِ راہ تھی میں وہاں نہ تھا میرے راستوں سے نکل گئی وہ جو ایک جاہِ پناہ تھی میں وہاں نہ تھا سرِ شام غم مجھے ڈھونڈتی میری ماں کی بجھتی نگاہ تھی میں وہاں نہ تھا میرے چار سو ہے دُھواں دُھواں میرے خواب سے میری آنکھ تک یہ جو سیلِ اشک ہے...
Comments
Post a Comment